EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

آساں نہیں انصاف کی زنجیر ہلانا
دنیا کو جہانگیر کا دربار نہ سمجھو

اختر بستوی




برسوں سے اس میں پھل نہیں آئے تو کیا ہوا
سایہ تو اب بھی صحن کے کہنہ شجر میں ہے

اختر بستوی




کیجئے کس کس سے آخر نا شناسی کا گلہ
جب کسی نے بھی نگاہ معتبر ڈالی نہیں

اختر بستوی




جس نے دنیا بھر کے غم اپنائے تھے
اس کو دنیا نے کہا بے درد تھا

اختر فیروز




اے جلتی رتو گواہ رہنا
ہم ننگے پاؤں چل رہے ہیں

اختر ہوشیارپوری




اخترؔ گزرتے لمحوں کی آہٹ پہ یوں نہ چونک
اس ماتمی جلوس میں اک زندگی بھی ہے

اختر ہوشیارپوری




الماری میں تصویریں رکھتا ہوں
اب بچپن اور بڑھاپا ایک ہوئے

اختر ہوشیارپوری