EN हिंदी
کیا پوچھتے ہو مجھ سے کہ میں کس نگر کا تھا | شیح شیری
kya puchhte ho mujhse ki main kis nagar ka tha

غزل

کیا پوچھتے ہو مجھ سے کہ میں کس نگر کا تھا

اختر ہوشیارپوری

;

کیا پوچھتے ہو مجھ سے کہ میں کس نگر کا تھا
جلتا ہوا چراغ مری رہگزر کا تھا

ہم جب سفر پہ نکلے تھے تاروں کی چھاؤں تھی
پھر اپنے ہم رکاب اجالا سحر کا تھا

ساحل کی گیلی ریت نے بخشا تھا پیرہن
جیسے سمندروں کا سفر چشم تر کا تھا

چہرے پہ اڑتی گرد تھی بالوں میں راکھ تھی
شاید وہ ہم سفر مرے اجڑے نگر کا تھا

کیا چیختی ہواؤں سے احوال پوچھتا
سایہ ہی یادگار مرے ہم سفر کا تھا

یکسانیت تھی کتنی ہمارے وجود میں
اپنا جو حال تھا وہی عالم بھنور کا تھا

وہ کون تھا جو لے کے مجھے گھر سے چل پڑا
صورت خضر کی تھی نہ وہ چہرہ خضر کا تھا

دہلیز پار کر نہ سکے اور لوٹ آئے
شاید مسافروں کو خطر بام و در کا تھا

کچے مکان جتنے تھے بارش میں بہہ گئے
ورنہ جو میرا دکھ تھا وہ دکھ عمر بھر کا تھا

میں اس گلی سے کیسے گزرتا جھکا کے سر
آخر کو یہ معاملہ بھی سنگ و سر کا تھا

لوگوں نے خود ہی کاٹ دئے راستوں کے پیڑ
اخترؔ بدلتی رت میں یہ حاصل نظر کا تھا