کچھ مجھے بھی یہاں قرار نہیں
کچھ ترا غم بھی در بہ در ہے یہاں
اختر ہوشیارپوری
کیا لوگ ہیں کہ دل کی گرہ کھولتے نہیں
آنکھوں سے دیکھتے ہیں مگر بولتے نہیں
اختر ہوشیارپوری
لوگ نظروں کو بھی پڑھ لیتے ہیں
اپنی آنکھوں کو جھکائے رکھنا
اختر ہوشیارپوری
میں اب بھی رات گئے اس کی گونج سنتا ہوں
وہ حرف کم تھا بہت کم مگر صدا تھا بہت
اختر ہوشیارپوری
میں اپنی ذات کی تشریح کرتا پھرتا تھا
نہ جانے پھر کہاں آواز کھو گئی میری
اختر ہوشیارپوری
میں نے جو خواب ابھی دیکھا نہیں ہے اخترؔ
میرا ہر خواب اسی خواب کی تعبیر بھی ہے
اختر ہوشیارپوری
میلے کپڑوں کا اپنا رنگ بھی تھا
پھر بھی قسمت میں جگ ہنسائی تھی
اختر ہوشیارپوری