شکاری رات بھر بیٹھے رہے اونچی مچانوں پر
مسافر پھر بھی لوٹ آنے کو جا پہنچے ٹھکانوں پر
کسی نے جھانک کر دیکھا نہ باہر ہی کوئی آیا
ہوا نے عمر بھر کیا کیا نہ دستک دی مکانوں پر
خود اپنا عکس رخ ہے جو کسی کو روک لے بڑھ کر
وگرنہ آدمی کب مستقل ٹھہرا چٹانوں پر
اٹھائے آسماں کے دکھ بھی کس میں اتنی ہمت ہے
زمیں ہی ایک بھاری ہے ہمیں تو اپنی جانوں پر
دریچوں نے یہ منظر آج پہلی بار دیکھا ہے
کہ تم جانے کہاں تھے اور سورج تھا مکانوں پر
گھروں سے جب نکل آئے تو سب نے راہ لی اپنی
مگر دنیا کی نظریں ہیں پرندوں کی اڑانوں پر
ہوا یوں ہی تو ہم کو لے کے پیڑوں تک نہیں آئی
ہمارا نام تھا لکھا ہوا گندم کے دانوں پر
یہ مانا آندھیوں کا حق ہے سب پر یورشیں کرنا
مگر یہ میں کہ میری آنکھ ہے خستہ مکانوں پر
کچھ اتنے ہو گئے مانوس سناٹوں سے ہم اخترؔ
گزرتی ہے گراں اپنی صدا بھی اب تو کانوں پر
غزل
شکاری رات بھر بیٹھے رہے اونچی مچانوں پر
اختر ہوشیارپوری