EN हिंदी
نہ را ابتدا سمجھو نہ راز انتہا سمجھو | شیح شیری
na raaz-e-ibtida samjho na raaz-e-intiha samjho

غزل

نہ را ابتدا سمجھو نہ راز انتہا سمجھو

اختر انصاری اکبرآبادی

;

نہ را ابتدا سمجھو نہ راز انتہا سمجھو
نظر والوں تمہیں کرنا ہے اب دنیا میں کیا سمجھو

طلب میں صدق ہے تو ایک دن منزل پہ پہنچو گے
قدم آگے بڑھاؤ خود کو اپنا رہنما سمجھو

یہ کیا انداز ہے اتنا گریز اہل تمنا سے
خدا توفیق دے تو اہل دل کا مدعا سمجھو

تمہارے ہر اشارے پر سر تسلیم خم لیکن
گزارش ہے کہ جذبات محبت کو ذرا سمجھو

ہو کوئی موج طوفاں یا ہوائے تند کا جھونکا
جو پہنچا دے لب ساحل اسی کو ناخدا سمجھو

جسے دیکھو وہی بدمست ہی مغرور ہے ہمدم
کوئی بندہ نہیں دنیا میں کس کس کو خدا سمجھو

یہاں رہبر کے پردے میں بہت رہزن ہیں اے اخترؔ
رہو دور اس سے تم جس کو وفا نا آشنا سمجھو