EN हिंदी
جام لا جام کہ آلام سے جی ڈرتا ہے | شیح شیری
jam la jam ki aalam se ji Darta hai

غزل

جام لا جام کہ آلام سے جی ڈرتا ہے

اختر انصاری اکبرآبادی

;

جام لا جام کہ آلام سے جی ڈرتا ہے
اثر گردش ایام سے جی ڈرتا ہے

لب پہ اب عارض و گیسو کے فسانے کیا ہوں
فتنہ ہائے سحر و شام سے جی ڈرتا ہے

تجھ کو میں ڈھونڈھتا پھرتا ہوں در و بام سے دور
اب تجلئ در و بام سے جی ڈرتا ہے

گل کھلائے نہ کہیں فتنۂ دوراں کچھ اور
آج کل دور مے و جام سے جی ڈرتا ہے

نگہ مست کے قربان مری سمت نہ دیکھ
موجۂ بادۂ گلفام سے جی ڈرتا ہے

چھوڑ کر راہ میں بت خانے گزر جاتا ہوں
ہوش میں جلوۂ اصنام سے جی ڈرتا ہے

رات کی ظلمتیں بڑھتی ہی چلی جاتی ہیں
اخترؔ اپنا تو سر شام سے جی ڈرتا ہے