یوں بدلتی ہے کہیں برق و شرر کی صورت
قابل دید ہوئی ہے گل تر کی صورت
زلف کی آڑ میں تھی جان نظر کی صورت
رات گزری تو نظر آئی سحر کی صورت
ان کے لب پر ہے تبسم مری آنکھوں میں سرور
کیا دکھائی ہے دعاؤں نے اثر کی صورت
قافلے والو نئے قافلہ سالار آئے
اب بدل جائے گی انداز سفر کی صورت
کیا کرشمہ ہے مرے جذبۂ آزادی کا
تھی جو دیوار کبھی اب ہے وہ در کی صورت
اب کوئی حوصلہ افزائے ہنر ہے اخترؔ
اب نظر آئے گی ارباب ہنر کی صورت
غزل
یوں بدلتی ہے کہیں برق و شرر کی صورت
اختر انصاری اکبرآبادی