ابھی اشکوں میں خوں شامل نہیں ہے
محبت کا جنوں کامل نہیں ہے
زمانے سے محبت کا ابھی تک
یہ حاصل ہے کہ کچھ حاصل نہیں ہے
نہ آنکھیں پھوڑ اس دشت جنوں میں
یہ راہ ناقۂ محمل نہیں ہے
زمیں پر بیٹھ جا اے شیخ تو بھی
یہ بزم مے تری محفل نہیں ہے
طبیبوں سے کہو گھر لوٹ جائیں
یہ درد دل وہ درد دل نہیں ہے
ہمیں اخلاقؔ اس سے بے خبر ہیں
کسی پل ہم سے وہ غافل نہیں ہے
غزل
ابھی اشکوں میں خوں شامل نہیں ہے
اخلاق بندوی