محبتوں میں بہت رس بھی ہے مٹھاس بھی ہے
ہمارے جینے کی بس اک یہی اساس بھی ہے
کبھی تو قرب سے بھی فاصلے نہیں مٹتے
گو ایک عمر سے وہ شخص میرے پاس بھی ہے
کسی کے آنے کا موسم کسی کے جانے کا
یہ دل کہ خوش بھی ہے لیکن بہت اداس بھی ہے
بدن کے شہر میں آباد اک درندہ ہے
اگرچہ دیکھنے میں کتنا خوش لباس بھی ہے
یہ جانتے ہیں کہ سب تھک کے گر پڑیں گے کہیں
شکستہ لوگوں میں جینے کی کتنی آس بھی ہے
وہ اس کا اپنا ہی انداز ہے بیاں کا امانؔ
ہر ایک حکم پہ کہتا ہے التماس بھی ہے

غزل
محبتوں میں بہت رس بھی ہے مٹھاس بھی ہے
اختر امان