یہ شوق سارے یقین و گماں سے پہلے تھا
میں سجدہ ریز نوائے اذاں سے پہلے تھا
ہیں کائنات کی سب وسعتیں اسی کی گواہ
جو ہر زمین سے ہر آسماں سے پہلے تھا
ستم ہے اس سے کہوں جسم و جاں پہ کیا گزری
کہ جس کو علم مرے جسم و جاں سے پہلے تھا
اسی نے دی ہے وہی ایک دن بجھائے گا پیاس
جو سوز سینہ و اشک رواں سے پہلے تھا
اسی سے تھی اور اسی سے رہے گی اپنی طلب
جو آرزو کی ہر اک این و آں سے پہلے تھا
وہ سن رہا ہے مری بے زبانیوں کی زباں
جو حرف و صوت و صدا و زباں سے پہلے تھا
یہ حمد حسن بیاں ہے مرا کہ عجز سخن
ہر ایک وصف جب اس کا بیاں سے پہلے تھا

غزل
یہ شوق سارے یقین و گماں سے پہلے تھا
اکبر علی خان عرشی زادہ