آج یوں مجھ سے ملا ہے کہ خفا ہو جیسے
اس کا یہ حسن بھی کچھ میری خطا ہو جیسے
وہی مایوسی کا عالم وہی نومیدی کا رنگ
زندگی بھی کسی مفلس کی دعا ہو جیسے
کبھی خاموشی بھی یوں بولتی ہے پیار کے بول
کوئی خاموشی میں بھی نغمہ سرا ہو جیسے
حرف دشنام سے یوں اس نے نوازا ہم کو
یہ ملامت ہی محبت کا صلہ ہو جیسے
اس تکلف سے ستم ہم پہ روا رکھتا ہے
یہ بھی منجملۂ آداب وفا ہو جیسے
غم ایام پہ یوں خوش ہیں ترے دیوانے
غم ایام بھی اک تیری ادا ہو جیسے
بندگی ہم کو تو آئی کہ نہ آئی لیکن
حسن یوں روٹھ گیا ہے کہ خدا ہو جیسے
غزل
آج یوں مجھ سے ملا ہے کہ خفا ہو جیسے
اکبر علی خان عرشی زادہ