EN हिंदी
وہی گماں ہے جو اس مہرباں سے پہلے تھا | شیح شیری
wahi guman hai jo us mehrban se pahle tha

غزل

وہی گماں ہے جو اس مہرباں سے پہلے تھا

اکبر علی خان عرشی زادہ

;

وہی گماں ہے جو اس مہرباں سے پہلے تھا
وہیں سے پھر یہ سفر ہے جہاں سے پہلے تھا

ہے اس نگہ کا کرشمہ کہ میرے دل کا ہنر
میں اس کے غم کا شناسا بیاں سے پہلے تھا

وہ ایک لمحہ مجھے کیوں ستا رہا ہے کہ جو
نہیں کے بعد مگر اس کی ہاں سے پہلے تھا

میں خوش ہوں ہم سفروں نے کہ مجھ سے چھین لیا
غرور رہروی جو کارواں سے پہلے تھا

وہی ان آنکھوں نے دیکھا جو دیکھنا تھا انہیں
میں خوش گماں کرم دوستاں سے پہلے تھا

فغاں کہ توڑ سکا میں نہ بے کسی کا طلسم
مرا نصیب مری داستاں سے پہلے تھا