EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

اک دھندلکا ہوں ذرا دیر میں چھٹ جاؤں گا
میں کوئی رات نہیں ہوں جو سحر تک جاؤں

سلیم صدیقی




اک ایک حرف کی رکھنی ہے آبرو مجھ کو
سوال دل کا نہیں ہے مری زبان کا ہے

سلیم صدیقی




کج کلاہی پہ نہ مغرور ہوا کر اتنا
سر اتر آتے ہیں شاہوں کے بھی دستار کے ساتھ

سلیم صدیقی




کون سا جرم خدا جانے ہوا ہے ثابت
مشورے کرتا ہے منصف جو گنہ گار کے ساتھ

سلیم صدیقی




خریدنے کے لئے اس کو بک گیا خود ہی
میں وہ ہوں جس کو منافعے میں بھی خسارا ہوا

سلیم صدیقی




خوف آنکھوں میں مری دیکھ کے چنگاری کا
کر دیا رات نے سورج کے حوالے مجھ کو

سلیم صدیقی




عمر بھر جس کے لئے پیٹ سے باندھے پتھر
اب وہ گن گن کے کھلاتا ہے نوالے مجھ کو

سلیم صدیقی