اک دھندلکا ہوں ذرا دیر میں چھٹ جاؤں گا
میں کوئی رات نہیں ہوں جو سحر تک جاؤں
سلیم صدیقی
اک ایک حرف کی رکھنی ہے آبرو مجھ کو
سوال دل کا نہیں ہے مری زبان کا ہے
سلیم صدیقی
کج کلاہی پہ نہ مغرور ہوا کر اتنا
سر اتر آتے ہیں شاہوں کے بھی دستار کے ساتھ
سلیم صدیقی
کون سا جرم خدا جانے ہوا ہے ثابت
مشورے کرتا ہے منصف جو گنہ گار کے ساتھ
سلیم صدیقی
خریدنے کے لئے اس کو بک گیا خود ہی
میں وہ ہوں جس کو منافعے میں بھی خسارا ہوا
سلیم صدیقی
خوف آنکھوں میں مری دیکھ کے چنگاری کا
کر دیا رات نے سورج کے حوالے مجھ کو
سلیم صدیقی
عمر بھر جس کے لئے پیٹ سے باندھے پتھر
اب وہ گن گن کے کھلاتا ہے نوالے مجھ کو
سلیم صدیقی