تجھ کو پانے کے لئے خود سے گزر تک جاؤں
ایسی جینے کی تمنا ہے کہ مر تک جاؤں
اب نہ شیشوں پہ گروں اور نہ شجر تک جاؤں
میں ہوں پتھر تو کسی دست ہنر تک جاؤں
اک دھندلکا ہوں ذرا دیر میں چھٹ جاؤں گا
میں کوئی رات نہیں ہوں جو سحر تک جاؤں
جس کے قدموں کے قصیدوں سے ہی فرصت نہ ملے
کیسے اس شخص کی تعظیم نظر تک جاؤں
گھر نے صحرا میں مجھے چھوڑ دیا تھا لا کر
اب ہو صحرا کی اجازت تو میں گھر تک جاؤں
اپنے مظلوم لبوں پر جو وہ رکھ لے مجھ کو
آہ بن کر میں دعاؤں کے اثر تک جاؤں
اے مری راہ کوئی راہ دکھا دے مجھ کو
دھوپ اوڑھوں کہ تہہ شاخ شجر تک جاؤں
غزل
تجھ کو پانے کے لئے خود سے گزر تک جاؤں
سلیم صدیقی