EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

باتوں میں ہے اس کی زہر تھوڑا
تھوڑا سا مزا شراب جیسا

سلیم شہزاد




ہوا کی زد میں پتے کی طرح تھا
وہ اک زخمی پرندے کی طرح تھا

سلیم شہزاد




کب تک ان آوارہ موجوں کا تماشا دیکھنا
گن چکے ہو ساعتوں کے تار تو واپس چلو

سلیم شہزاد




اسے پتا ہے کہ رکتی نہیں ہے چھانو کبھی
تو پھر وہ ابر کو کیوں سائباں سمجھتا ہے

سلیم شہزاد




وہم و خرد کے مارے ہیں شاید سب لوگ
دیکھ رہا ہوں شیشے کے گھر چاروں اور

سلیم شہزاد




زرد پتے میں کوئی نقطۂ سبز
اپنے ہونے کا پتا کافی ہے

سلیم شہزاد




بڑی ہی اندھیری ڈگر ہے میاں
جہاں ہم فقیروں کا گھر ہے میاں

سلیم شیرازی