EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

یہ لوگ عشق میں سچے نہیں ہیں ورنہ ہجر
نہ ابتدا نہ کہیں انتہا میں آتا ہے

سلیم کوثر




یہ لوگ عشق میں سچے نہیں ہیں ورنہ ہجر
نہ ابتدا نہ کہیں انتہا میں آتا ہے

سلیم کوثر




زوروں پہ سلیمؔ اب کے ہے نفرت کا بہاؤ
جو بچ کے نکل آئے گا تیراک وہی ہے

سلیم کوثر




ہر بزم کیوں نمائش زخم ہنر بنے
ہر بھید اپنے دوستوں کے درمیاں نہ کھول

سلیم شاہد




ہر لحظہ اس کے پاؤں کی آہٹ پہ کان رکھ
دروازے تک جو آیا ہے اندر بھی آئے گا

سلیم شاہد




آگ بھی برسی درختوں پر وہیں
کال بستی میں جہاں پانی کا تھا

سلیم شہزاد




ان کہی کہہ ان سنی باتیں سنا
رہ گیا جو کچھ بھی سوچا سوچ لے

سلیم شہزاد