بدن قبول ہے عریانیت کا مارا ہوا
مگر لباس نہ پہنیں گے ہم اتارا ہوا
وہ جس کے سرخ اجالے میں ہم منور تھے
وہ دن بھی شب کے تعاقب میں تھا گزارا ہوا
پناہ گاہ شجر فتح کر کے سویا ہے
مسافتوں کی تھکن سے یہ جسم ہارا ہوا
مجھے زمین کی پرتوں میں رکھ دیا کس نے
میں ایک نقش تھا افلاک پہ ابھارا ہوا
خریدنے کے لئے اس کو بک گیا خود ہی
میں وہ ہوں جس کو منافعے میں بھی خسارا ہوا
سما گیا مرے پیروں کے آبلوں میں سلیمؔ
چلو کہ آج سے یہ خار بھی ہمارا ہوا

غزل
بدن قبول ہے عریانیت کا مارا ہوا
سلیم صدیقی