EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

زخم در زخم سخن اور بھی ہوتا ہے وسیع
اشک در اشک ابھرتی ہے قلم کار کی گونج

سلیم صدیقی




نہیں اک بار بھی اب سننے کی طاقت دل میں
پہلے سو بار ترا نام لیا کرتے تھے

سالک دہلوی




آج بھی ہے وہی مقام آج بھی لب پہ ان کا نام
منزل بے شمار گام اپنے سفر کو کیا کروں

سالک لکھنوی




اپنی خودداری سلامت دل کا عالم کچھ سہی
جس جگہ سے اٹھ چکے ہیں اس جگہ پھر جائیں کیا

سالک لکھنوی




بہار گلستاں ہم کو نہ پہچانے تعجب ہے
گلوں کے رخ پہ چھڑکا ہے بہت خون جگر ہم نے

سالک لکھنوی




چاہا تھا ٹھوکروں میں گزر جائے زندگی
لوگوں نے سنگ راہ سمجھ کر ہٹا دیا

سالک لکھنوی




دھواں دیتا ہے دامان محبت
ان آنکھوں سے کوئی آنسو گرا ہے

سالک لکھنوی