زخم در زخم سخن اور بھی ہوتا ہے وسیع
اشک در اشک ابھرتی ہے قلم کار کی گونج
سلیم صدیقی
نہیں اک بار بھی اب سننے کی طاقت دل میں
پہلے سو بار ترا نام لیا کرتے تھے
سالک دہلوی
آج بھی ہے وہی مقام آج بھی لب پہ ان کا نام
منزل بے شمار گام اپنے سفر کو کیا کروں
سالک لکھنوی
اپنی خودداری سلامت دل کا عالم کچھ سہی
جس جگہ سے اٹھ چکے ہیں اس جگہ پھر جائیں کیا
سالک لکھنوی
بہار گلستاں ہم کو نہ پہچانے تعجب ہے
گلوں کے رخ پہ چھڑکا ہے بہت خون جگر ہم نے
سالک لکھنوی
چاہا تھا ٹھوکروں میں گزر جائے زندگی
لوگوں نے سنگ راہ سمجھ کر ہٹا دیا
سالک لکھنوی
دھواں دیتا ہے دامان محبت
ان آنکھوں سے کوئی آنسو گرا ہے
سالک لکھنوی