EN हिंदी
یقیں کی دھوپ میں سایہ بھی کچھ گمان کا ہے | شیح شیری
yaqin ki dhup mein saya bhi kuchh guman ka hai

غزل

یقیں کی دھوپ میں سایہ بھی کچھ گمان کا ہے

سلیم صدیقی

;

یقیں کی دھوپ میں سایہ بھی کچھ گمان کا ہے
یہی تو وقت مسافر کے امتحان کا ہے

پلٹ رہا ہے زمانہ صدائے حق کی طرف
جہان فکر میں چرچا مری اذان کا ہے

اسی کے خوف سے لرزاں ہے دشمنوں کا ہجوم
وہ ایک تیر جو ٹوٹی ہوئی کمان کا ہے

یہی کہیں پہ وفاؤں کی قبر گاہ بھی تھی
یہی کہیں سے تو رستہ ترے مکان کا ہے

اک ایک حرف کی رکھنی ہے آبرو مجھ کو
سوال دل کا نہیں ہے مری زبان کا ہے

جو ایک چھوٹا سا دل ہے سلیمؔ سینے میں
وہ آفتاب محبت کے آسمان کا ہے