یقیں کی دھوپ میں سایہ بھی کچھ گمان کا ہے
یہی تو وقت مسافر کے امتحان کا ہے
پلٹ رہا ہے زمانہ صدائے حق کی طرف
جہان فکر میں چرچا مری اذان کا ہے
اسی کے خوف سے لرزاں ہے دشمنوں کا ہجوم
وہ ایک تیر جو ٹوٹی ہوئی کمان کا ہے
یہی کہیں پہ وفاؤں کی قبر گاہ بھی تھی
یہی کہیں سے تو رستہ ترے مکان کا ہے
اک ایک حرف کی رکھنی ہے آبرو مجھ کو
سوال دل کا نہیں ہے مری زبان کا ہے
جو ایک چھوٹا سا دل ہے سلیمؔ سینے میں
وہ آفتاب محبت کے آسمان کا ہے

غزل
یقیں کی دھوپ میں سایہ بھی کچھ گمان کا ہے
سلیم صدیقی