اتنی قربت بھی نہیں ٹھیک ہے اب یار کے ساتھ
زخم کھا جاؤ گے کھیلو گے جو تلوار کے ساتھ
ایک آہٹ بھی مرے گھر سے ابھرتی ہے اگر
لوگ کان اپنے لگا لیتے ہیں دیوار کے ساتھ
پاؤں ساکت ہیں مگر گھوم رہی ہے دنیا
زندگی ٹھہری ہوئی لگتی ہے رفتار کے ساتھ
ایک جلتا ہوا آنسو مری آنکھوں سے گرا
بیڑیاں ٹوٹ گئیں ظلم کی جھنکار کے ساتھ
کل بھی انمول تھا میں آج بھی انمول ہوں میں
گھٹتی بڑھتی نہیں قیمت مری بازار کے ساتھ
کج کلاہی پہ نہ مغرور ہوا کر اتنا
سر اتر آتے ہیں شاہوں کے بھی دستار کے ساتھ
کون سا جرم خدا جانے ہوا ہے ثابت
مشورے کرتا ہے منصف جو گنہ گار کے ساتھ
شہر بھر کو میں میسر ہوں سوائے اس کے
جس کی دیوار لگی ہے مری دیوار کے ساتھ
غزل
اتنی قربت بھی نہیں ٹھیک ہے اب یار کے ساتھ
سلیم صدیقی