روز پتھر کی حمایت میں غزل لکھتے ہیں
روز شیشوں سے کوئی کام نکل پڑتا ہے
راحتؔ اندوری
روز تاروں کو نمائش میں خلل پڑتا ہے
چاند پاگل ہے اندھیرے میں نکل پڑتا ہے
راحتؔ اندوری
شاخوں سے ٹوٹ جائیں وہ پتے نہیں ہیں ہم
آندھی سے کوئی کہہ دے کہ اوقات میں رہے
راحتؔ اندوری
شہر کیا دیکھیں کہ ہر منظر میں جالے پڑ گئے
ایسی گرمی ہے کہ پیلے پھول کالے پڑ گئے
راحتؔ اندوری
سورج ستارے چاند مرے سات میں رہے
جب تک تمہارے ہات مرے ہات میں رہے
راحتؔ اندوری
اس کی یاد آئی ہے سانسو ذرا آہستہ چلو
دھڑکنوں سے بھی عبادت میں خلل پڑتا ہے
راحتؔ اندوری
وہ چاہتا تھا کہ کاسہ خرید لے میرا
میں اس کے تاج کی قیمت لگا کے لوٹ آیا
راحتؔ اندوری