EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

کسی کو سایا کسی کو گل و ثمر دے گا
ہرا بھرا ہے درخت رواج رہنے دو

راہی فدائی




لذت کا زہر وقت سحر چھوڑ کر کوئی
شب کے تمام رشتے فراموش کر گیا

راہی فدائی




سبزہ زاروں کی شرافت سے نہ کھیلو قطعاً
تم ہوا ہو تو خلاؤں سے لپٹ کر دیکھو

راہی فدائی




شرافتوں کے رنگ میں شرارتیں خلط ملط
سر مذاق ہو گئیں حماقتیں خلط ملط

راہی فدائی




یہ کیسا گل کھلایا ہے شجر نے
ثمر بننے کو غنچہ منتظر ہے

راہی فدائی




دل کی کھیتی سوکھ رہی ہے کیسی یہ برسات ہوئی
خوابوں کے بادل آتے ہیں لیکن آگ برستی ہے

راہی معصوم رضا




ہاں انہیں لوگوں سے دنیا میں شکایت ہے ہمیں
ہاں وہی لوگ جو اکثر ہمیں یاد آئے ہیں

راہی معصوم رضا