بیمار کو مرض کی دوا دینی چاہئے
میں پینا چاہتا ہوں پلا دینی چاہئے
اللہ برکتوں سے نوازے گا عشق میں
ہے جتنی پونجی پاس لگا دینی چاہئے
دل بھی کسی فقیر کے حجرے سے کم نہیں
دنیا یہیں پہ لا کے چھپا دینی چاہئے
میں خود بھی کرنا چاہتا ہوں اپنا سامنا
تجھ کو بھی اب نقاب اٹھا دینی چاہئے
میں پھول ہوں تو پھول کو گلدان ہو نصیب
میں آگ ہوں تو آگ بجھا دینی چاہئے
میں تاج ہوں تو تاج کو سر پر سجائیں لوگ
میں خاک ہوں تو خاک اڑا دینی چاہئے
میں جبر ہوں تو جبر کی تائید بند ہو
میں صبر ہوں تو مجھ کو دعا دینی چاہئے
میں خواب ہوں تو خواب سے چونکایئے مجھے
میں نیند ہوں تو نیند اڑا دینی چاہئے
سچ بات کون ہے جو سر عام کہہ سکے
میں کہہ رہا ہوں مجھ کو سزا دینی چاہئے
غزل
بیمار کو مرض کی دوا دینی چاہئے
راحتؔ اندوری