EN हिंदी
ہاتھ خالی ہیں ترے شہر سے جاتے جاتے | شیح شیری
hath Khaali hain tere shahr se jate jate

غزل

ہاتھ خالی ہیں ترے شہر سے جاتے جاتے

راحتؔ اندوری

;

ہاتھ خالی ہیں ترے شہر سے جاتے جاتے
جان ہوتی تو مری جان لٹاتے جاتے

اب تو ہر ہاتھ کا پتھر ہمیں پہچانتا ہے
عمر گزری ہے ترے شہر میں آتے جاتے

اب کے مایوس ہوا یاروں کو رخصت کر کے
جا رہے تھے تو کوئی زخم لگاتے جاتے

رینگنے کی بھی اجازت نہیں ہم کو ورنہ
ہم جدھر جاتے نئے پھول کھلاتے جاتے

میں تو جلتے ہوئے صحراؤں کا اک پتھر تھا
تم تو دریا تھے مری پیاس بجھاتے جاتے

مجھ کو رونے کا سلیقہ بھی نہیں ہے شاید
لوگ ہنستے ہیں مجھے دیکھ کے آتے جاتے

ہم سے پہلے بھی مسافر کئی گزرے ہوں گے
کم سے کم راہ کے پتھر تو ہٹاتے جاتے