یہ سرد راتیں بھی بن کر ابھی دھواں اڑ جائیں
وہ اک لحاف میں اوڑھوں تو سردیاں اڑ جائیں
خدا کا شکر کہ میرا مکاں سلامت ہے
ہیں اتنی تیز ہوائیں کہ بستیاں اڑ جائیں
زمیں سے ایک تعلق نے باندھ رکھا ہے
بدن میں خون نہیں ہو تو ہڈیاں اڑ جائیں
بکھر بکھر سی گئی ہے کتاب سانسوں کی
یہ کاغذات خدا جانے کب کہاں اڑ جائیں
رہے خیال کہ مجذوب عشق ہیں ہم لوگ
اگر زمین سے پھونکیں تو آسماں اڑ جائیں
ہوائیں باز کہاں آتی ہیں شرارت سے
سروں پہ ہاتھ نہ رکھیں تو پگڑیاں اڑ جائیں
بہت غرور ہے دریا کو اپنے ہونے پر
جو میری پیاس سے الجھے تو دھجیاں اڑ جائیں
غزل
یہ سرد راتیں بھی بن کر ابھی دھواں اڑ جائیں
راحتؔ اندوری