EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

جل اٹھیں یادوں کی قندیلیں صدائیں ڈوب جائیں
درحقیقت خامشی صحرا بھی ہے دریا بھی ہے

احمد شہریار




خواب زیاں ہیں عمر کا خواب ہیں حاصل حیات
اس کا بھی تھا یقیں مجھے وہ بھی مرے گماں میں تھا

احمد شہریار




لمس صدائے ساز نے زخم نہال کر دیے
یہ تو وہی ہنر ہے جو دست طبیب جاں میں تھا

احمد شہریار




نہ دستکیں نہ صدا کون در پہ آیا ہے
فقیر شہر ہے یا شہریار دیکھئے گا

احمد شہریار




قطرہ ٹھیک ہے دریا ہونے میں نقصان بہت ہے
دیکھ تو کیسے ڈوب رہا ہے میرا لشکر مجھ میں

احمد شہریار




راتوں کو جاگتے ہیں اسی واسطے کہ خواب
دیکھے گا بند آنکھیں تو پھر لوٹ جائے گا

احمد شہریار




سمائی کس طرح میری آنکھوں کی پتلیوں میں
وہ ایک حیرت جو آئینے سے بہت بڑی تھی

احمد شہریار