EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

چاند میں درویش ہے جگنو میں جوگی
کون ہے وہ اور کس کو کھوجتا ہے

احمد شناس




ایک بچہ ذہن سے پیسہ کمانے کی مشین
دوسرا کمزور تھا سو یرغمالی ہو گیا

احمد شناس




غرق کرتا ہے نہ دیتا ہے کنارہ ہی مجھے
اس نے میری ذات میں کیسا سمندر رکھ دیا

احمد شناس




جانکاری کھیل لفظوں کا زباں کا شور ہے
جو بہت کم جانتا ہے وہ یہاں شہ زور ہے

احمد شناس




جسم بھوکا ہے تو ہے روح بھی پیاسی میری
کام ایسا ہے کہ دن رات کا کارندہ ہوں

احمد شناس




کون قطرے میں اٹھاتا ہے تلاطم
اور انتر آتما تک سینچتا ہے

احمد شناس




خود کو پایا تھا نہ کھویا میں نے
بے کراں ذات کنارا تھا مجھے

احمد شناس