راز درون آستیں کشمکش بیاں میں تھا
آگ ابھی نفس میں تھی شعلہ ابھی زباں میں تھا
وہ جو کہیں تھا وہ بھی میں اور جو نہیں تھا وہ بھی میں
آپ ہی تھا زمین پر آپ ہی آسماں میں تھا
لمس صدائے ساز نے زخم نہال کر دیے
یہ تو وہی ہنر ہے جو دست طبیب جاں میں تھا
خواب زیاں ہیں عمر کا خواب ہیں حاصل حیات
اس کا بھی تھا یقیں مجھے وہ بھی مرے گماں میں تھا
خنجر و دشنہ و سناں یہ تو بہانے ہیں میاں
آپ نہ شرمسار ہوں زخم سرشت جاں میں تھا
حد گماں سے ایک شخص دور کہیں چلا گیا
میں بھی وہیں چلا گیا میں بھی گزشتگاں میں تھا
غزل
راز درون آستیں کشمکش بیاں میں تھا
احمد شہریار