انعکاس تشنگی صحرا بھی ہے دریا بھی ہے
تر بتر یہ روشنی صحرا بھی ہے دریا بھی ہے
آگ پر میرا تصرف آب پر میری گرفت
میری مٹھی میں ابھی صحرا بھی ہے دریا بھی ہے
جھیل میں ٹھہرا ہوا ہے اس کا عکس آتشیں
آئنے میں اس گھڑی صحرا بھی ہے دریا بھی ہے
جل اٹھیں یادوں کی قندیلیں صدائیں ڈوب جائیں
درحقیقت خامشی صحرا بھی ہے دریا بھی ہے
زندہ لوٹ آیا ہوں جنگل سے تو کیا جائے ملال
میرے رستے میں ابھی صحرا بھی ہے دریا بھی ہے
کوئی خیمے راکھ کر دے کوئی بازو چھین لے
ایک سی غارتگری صحرا بھی ہے دریا بھی ہے
ریت پر رکھوں تجھے یا بہتے پانی میں بہاؤں
دیکھ اے تشنہ لبی صحرا بھی ہے دریا بھی ہے
تو بگولا ہے کہ ہے گرداب اے رقص دوام
فیصلہ کر لے ابھی صحرا بھی ہے دریا بھی ہے
دشت بھی اس کی روایت میں ہے موج آب بھی
میری آنکھوں کی نمی صحرا بھی ہے دریا بھی ہے
تو سنبھالے گا بھلا کیسے یہ ساری سلطنت
شہریارؔ شاعری صحرا بھی ہے دریا بھی ہے
غزل
انعکاس تشنگی صحرا بھی ہے دریا بھی ہے
احمد شہریار