EN हिंदी
نئے زمانوں کی چاپ تو سر پہ آ کھڑی تھی | شیح شیری
nae zamanon ki chap to sar pe aa khaDi thi

غزل

نئے زمانوں کی چاپ تو سر پہ آ کھڑی تھی

احمد شہریار

;

نئے زمانوں کی چاپ تو سر پہ آ کھڑی تھی
مری سماعت گزشتہ ادوار میں پڑی تھی

ادھر دئیے کا بدن ہوا سے تھا پارہ پارہ
ادھر اندھیرے کی آنکھ میں اک کرن گڑی تھی

فلک پہ تھا آتشیں درختوں کا ایک جنگل
اور ان درختوں کے بیچ تاریک جھونپڑی تھی

سمائی کس طرح میری آنکھوں کی پتلیوں میں
وہ ایک حیرت جو آئینے سے بہت بڑی تھی

جسے پرویا تھا اپنے ہاتھوں سے تیرے غم نے
صدائے گریہ میں ہچکیوں کی عجب لڑی تھی

ہماری پلکوں پہ رقص کرتے ہوئے شرارے
اور آسماں میں کہیں ستاروں کی پھلجڑی تھی

طلوع صبح ہزار خورشید کی دعا پر
بجھے چراغوں کی راکھ دامن پہ آ پڑی تھی

سبھی غمیں تھے مرے پیالے میں زہر پا کر
میں مطمئن تھا کہ میری تکمیل کی گھڑی تھی

سوال رخ گلستاں میں آیا تو پھول ٹھہرا
لبوں کی حسرت سخن میں پہنچی تو پنکھڑی تھی

یہ لوگ تو ان دنوں بھی ناخوش تھے شہریاراؔ
کہ جن دنوں میرے پاس جادو کی اک چھڑی تھی