ساری دنیا سے الگ وحشت دل ہے اپنی
یہ کہ لگتی ہے نہ گھر کی نہ بیاباں والی
احمد صغیر صدیقی
سنتا ہے یہاں کون سمجھتا ہے یہاں کون
یہ شغل سخن وقت گزاری کے لیے ہے
احمد صغیر صدیقی
تخلیق خود کیا تھا کل اپنے میں ایک گھر
اب گھر سے خلق چند مکیں کر رہے ہیں ہم
احمد صغیر صدیقی
تھے یہاں سارے عمل رد عمل کے محتاج
زندگی بھی ہمیں درکار تھی مرنے کے لیے
احمد صغیر صدیقی
اسی خاطر ہٹا لی ہے مسائل سے توجہ
انہیں تھوڑا سا میں گمبھیر کرنا چاہتا ہوں
احمد صغیر صدیقی
یہ کیا کہ عاشقی میں بھی فکر زیاں رہے
دامن کا چاک تا بہ جگر جانا چاہیے
احمد صغیر صدیقی
یہ نہ دیکھو کہ مرے زخم بہت کاری ہیں
یہ بتاؤ کہ مرا دشمن جاں کیسا ہے
احمد صغیر صدیقی