EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

زخم اتنے ہیں بدن پر کہ کہیں درد نہیں
ہم بھی پتھراؤ میں پتھر کے ہوئے جاتے ہیں

احمد صغیر صدیقی




جو دکھ رہا اسی کے اندر جو ان دکھا ہے وہ شاعری ہے
جو کہہ سکا تھا وہ کہہ چکا ہوں جو رہ گیا ہے وہ شاعری ہے

احمد سلمان




کچل کچل کے نہ فٹ پاتھ کو چلو اتنا
یہاں پہ رات کو مزدور خواب دیکھتے ہیں

احمد سلمان




میں ہوں بھی تو لگتا ہے کہ جیسے میں نہیں ہوں
تم ہو بھی نہیں اور یہ لگتا ہے کہ تم ہو

احمد سلمان




سب نے مانا مرنے والا دہشت گرد اور قاتل تھا
ماں نے پھر بھی قبر پہ اس کی راج دلارا لکھا تھا

احمد سلمان




وہ جن درختوں کی چھاؤں میں سے مسافروں کو اٹھا دیا تھا
انہیں درختوں پہ اگلے موسم جو پھل نہ اترے تو لوگ سمجھے

احمد سلمان




دنیا نے جو زخم دیئے تھے بھر دیئے تیری یادوں نے
یادوں نے جو زخم لگائے وہ بڑھ کر ناسور ہوئے

احمد شاہد خاں