EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

سخت جاں وہ ہوں کہ مقتل سے سرافراز آیا
کتنی تلواروں کو دیتا ہوا آواز آیا

پرویز شاہدی




یاد ہیں آپ کے توڑے ہوئے پیماں ہم کو
کیجئے اور نہ شرمندۂ احساں ہم کو

پرویز شاہدی




یہ تاج کے سائے میں زر و سیم کے خرمن
کیوں آتش کشکول گدا سے نہیں ڈرتے

پرویز شاہدی




لگا جب یوں کہ اکتانے لگا ہے دل اجالوں سے
اسے محفل سے اس کی الوداع کہہ کر نکل آئے

پروندر شوخ




جن کے ہونٹوں پہ ہنسی پاؤں میں چھالے ہوں گے
ہاں وہی لوگ تمہیں چاہنے والے ہوں گے

پرواز جالندھری




کلیجہ رہ گیا اس وقت پھٹ کر
کہا جب الوداع اس نے پلٹ کر

پون کمار




عجیب شے ہے تصور کی کار فرمائی
ہزار محفل رنگیں شریک تنہائی

پیام فتحپوری