نکلے ہیں گھر سے دیکھنے کو لوگ ماہ عید
اور دیکھتے ہیں ابروئے خم دار کی طرف
پروین ام مشتاق
پو پھٹتے ہی ریاضؔ جہاں خلد بن گیا
غلمان مہر ساتھ لئے آئی حور صبح
پروین ام مشتاق
پی بادۂ احمر تو یہ کہنے لگا گل رو
میں سرخ ہوں تم سرخ زمیں سرخ زماں سرخ
پروین ام مشتاق
سنتے سنتے واعظوں سے ہجو مے
ضعف سا کچھ آ گیا ایمان میں
پروین ام مشتاق
ٹھہر جاؤ بوسے لینے دو نہ توڑو سلسلہ
ایک کو کیا واسطہ ہے دوسرے کے کام سے
پروین ام مشتاق
اسی دن سے مجھے دونوں کی بربادی کا خطرہ تھا
مکمل ہو چکے تھے جس گھڑی ارض و سما بن کر
پروین ام مشتاق
واعظ کو لعن طعن کی فرصت ہے کس طرح
پوری ابھی خدا کی طرف لو لگی نہیں
پروین ام مشتاق