کلیجہ رہ گیا اس وقت پھٹ کر
کہا جب الوداع اس نے پلٹ کر
تسلی کس طرح دیتا اسے میں
میں خود ہی رو پڑا اس سے لپٹ کر
اکیلا رہ گیا ہوں کارواں میں
کہاں تک آ گئی تعداد گھٹ کر
نہ کوئی عکس باقی تھا نہ صورت
رکھا جو آئنہ میں نے الٹ کر
پرندہ اور اڑنا چاہتا تھا
افق ہی رہ گیا خود میں سمٹ کر
نہ بچ پائیں گے پربت بندشوں کے
محبت کی ندی نکلی ہے کٹ کر
غزل
کلیجہ رہ گیا اس وقت پھٹ کر
پون کمار