EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

خوشی وصال کی اب ہے نہ رنج تنہائی
یہ کس مقام پہ مجھ کو حیات لے آئی

پیام فتحپوری




ملامتوں سے جنوں میں نہ کچھ کمی آئی
جراحتوں سے بڑھی زخم دل کی رعنائی

پیام فتحپوری




نفس نفس پہ یہاں رحمتوں کی بارش ہے
ہے بد نصیب جسے زندگی نہ راس آئی

پیام فتحپوری




پھیلا فضا میں نغمۂ زنجیر مرحبا
زنداں میں گھٹ کے رہ نہ سکی زندگی کی بات

پیام فتحپوری




سکون دے نہ سکیں راحتیں زمانے کی
جو نیند آئی ترے غم کی چھاؤں میں آئی

پیام فتحپوری




تاریخ کائنات عبادت جنوں سے ہے
عنوان عقل و ہوش ہے دیوانگی کی بات

پیام فتحپوری




جب اس نے مرا خط نہ چھوا ہاتھ سے اپنے
قاصد نے بھی چپکا دیا دیوار سے کاغذ

پیر شیر محمد عاجز