EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

زیست نے مردہ بنا رکھا تھا مجھ کو ہجر میں
موت نے دکھلا دیا آ کر مسیحائی کا رنگ

پیر شیر محمد عاجز




دیدنی ہے ترے عتاب کا رنگ
شیشۂ چشم میں شراب کا رنگ

پنہاں سپہر آرا خاتون




اک سزا اور اسیروں کو سنا دی جائے
یعنی اب جرم اسیری کی سزا دی جائے

پیرزادہ قاسم




شہر طلب کرے اگر تم سے علاج تیرگی
صاحب اختیار ہو آگ لگا دیا کرو

پیرزادہ قاسم




تمہیں جفا سے نہ یوں باز آنا چاہیئے تھا
ابھی کچھ اور مرا دل دکھانا چاہیئے تھا

پیرزادہ قاسم




اس کی خواہش ہے کہ اب لوگ نہ روئیں نہ ہنسیں
بے حسی وقت کی آواز بنا دی جائے

پیرزادہ قاسم




منگل کو بجرنگ بلی سے تیرا شکر مناؤں
اور شکر کو تو اللہ سے میرا منگل مانگے

پربدھ سوربھ