ذرا سوچا تو کیا کیا ذہن سے منظر نکل آئے
مرے احساس کے کچھ کھنڈروں سے گھر نکل آئے
لگیں دینے سبق وہ پھر پرندوں کو اڑانوں کا
ذرا سے شہر میں جب چینٹیوں کے پر نکل آئے
یہ عالم ہے کہ جب بھی گھر میں کچھ ڈھونڈنے بیٹھا
پرانے کاغذوں سے یاد کے منظر نکل آئے
لگا جب یوں کہ اکتانے لگا ہے دل اجالوں سے
اسے محفل سے اس کی الوداع کہہ کر نکل آئے
دکھائی دے کبھی یہ معجزہ بھی مجھ کو الفت میں
کسی شب چاند بن کر وہ مری چھت پر نکل آئے
ملے ہیں زخم جب سے شوخؔ وہ گلشن سے برتا ہے
بھروسہ کچھ نہیں کس پھول سے پتھر نکل آئے
غزل
ذرا سوچا تو کیا کیا ذہن سے منظر نکل آئے
پروندر شوخ