EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

خواہشوں کی آنچ میں تپتے بدن کی لذتیں ہیں
اور وحشی رات ہے گمراہیاں سر پر اٹھائے

پی.پی سری واستو رند




کوئی دستک نہ کوئی آہٹ تھی
مدتوں وہم کے شکار تھے ہم

پی.پی سری واستو رند




رات ہم نے جگنوؤں کی سب دکانیں بیچ دیں
صبح کو نیلام کرنے کے لیے کچھ گھر بھی تھے

پی.پی سری واستو رند




سرخ موسم کی کہانی تو پرانی ہو گئی
کھل گیا موسم تو سارے شہر میں چرچا ہوا

پی.پی سری واستو رند




آنسوؤں میں مرے کاندھے کو ڈبونے والے
پوچھ تو لے کہ مرے جسم کا صحرا ہے کہاں

پلو مشرا




انہیں پتھروں پہ چل کر اگر آ سکو تو آؤ
مرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے




اے شمع تجھ پہ رات یہ بھاری ہے جس طرح
میں نے تمام عمر گزاری ہے اس طرح




اوروں کی برائی کو نہ دیکھوں وہ نظر دے
ہاں اپنی برائی کو پرکھنے کا ہنر دے




ہم جس کے ہو گئے وہ ہمارا نہ ہو سکا
یوں بھی ہوا حساب برابر کبھی کبھی




ایک ہو جائیں تو بن سکتے ہیں خورشید مبیں
ورنہ ان بکھرے ہوئے تاروں سے کیا کام بنے




موت کی پہلی علامت صاحب
یہی احساس کا مر جانا ہے




وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہی یعنی وعدہ نباہ کا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

the love that 'tween us used to be, you may, may not recall
those promises of constancy, you may, may not recall




the love that 'tween us used to be, you may, may not recall
those promises of constancy, you may, may not recall

پلو مشرا




مکین دل کو خانما‌ں خراب سے عشق تھا
قیام ڈھونڈھتا رہا تمہاری چھت کے بعد بھی

پلو مشرا