عشق کی تمنا تھی عشق کی تمنا ہے
عشق ہی کی راہوں میں مستیوں کا میلہ ہے
اویس الحسن خان
ہے پیار کا یہ کھیل کہاں مکر سے خالی
لیکن دل ناداں کو دکھانا نہیں آیا
عزیر رحمان
کرتا رہا میں منتیں کم کی نہ کچھ دعا
حاصل ہوا نہ کچھ تو خدا بے اثر لگا
عزیر رحمان
آستینوں میں چھپا کر سانپ بھی لائے تھے لوگ
شہر کی اس بھیڑ میں کچھ لوگ بازی گر بھی تھے
پی.پی سری واستو رند
آسودگی نے تھپکیاں دے کر سلا دیا
گھر کی ضرورتوں نے جگایا تو ڈر لگا
پی.پی سری واستو رند
برف منظر دھول کے بادل ہوا کے قہقہے
جو کبھی دہلیز کے باہر تھے وہ اندر بھی تھے
پی.پی سری واستو رند
چاہتا ہے دل کسی سے راز کی باتیں کرے
پھول آدھی رات کا آنگن میں ہے مہکا ہوا
پی.پی سری واستو رند