EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

عشق کی تمنا تھی عشق کی تمنا ہے
عشق ہی کی راہوں میں مستیوں کا میلہ ہے

اویس الحسن خان




ہے پیار کا یہ کھیل کہاں مکر سے خالی
لیکن دل ناداں کو دکھانا نہیں آیا

عزیر رحمان




کرتا رہا میں منتیں کم کی نہ کچھ دعا
حاصل ہوا نہ کچھ تو خدا بے اثر لگا

عزیر رحمان




آستینوں میں چھپا کر سانپ بھی لائے تھے لوگ
شہر کی اس بھیڑ میں کچھ لوگ بازی گر بھی تھے

پی.پی سری واستو رند




آسودگی نے تھپکیاں دے کر سلا دیا
گھر کی ضرورتوں نے جگایا تو ڈر لگا

پی.پی سری واستو رند




برف منظر دھول کے بادل ہوا کے قہقہے
جو کبھی دہلیز کے باہر تھے وہ اندر بھی تھے

پی.پی سری واستو رند




چاہتا ہے دل کسی سے راز کی باتیں کرے
پھول آدھی رات کا آنگن میں ہے مہکا ہوا

پی.پی سری واستو رند