پیش منظر جو تماشے تھے پس منظر بھی تھے
ہم ہی تھے مال غنیمت ہم ہی غارت گر بھی تھے
آستینوں میں چھپا کر سانپ بھی لائے تھے لوگ
شہر کی اس بھیڑ میں کچھ لوگ بازی گر بھی تھے
برف منظر دھول کے بادل ہوا کے قہقہے
جو کبھی دہلیز کے باہر تھے وہ اندر بھی تھے
آخر شب درد کی ٹوٹی ہوئی بیساکھیاں
آڑے ترچھے زاویے موسم کے چہرے پر بھی تھے
رات ہم نے جگنوؤں کی سب دکانیں بیچ دیں
صبح کو نیلام کرنے کے لیے کچھ گھر بھی تھے
کچھ بلا عنوان رشتے اجنبی سرگوشیاں
رتجگوں کے جشن میں زخموں کے سوداگر بھی تھے
شب پرستوں کے نگر میں بت پرستی ہی نہ تھی
وحشتیں تھیں سنگ مرمر بھی تھا کاری گر بھی تھے
اس خرابے میں نئے موسم کی سازش تھی تو رندؔ
لذت احساس کے لمحوں کے جلتے پر بھی تھے
غزل
پیش منظر جو تماشے تھے پس منظر بھی تھے
پی.پی سری واستو رند