سازشوں کی بھیڑ میں تاریکیاں سر پر اٹھائے
بڑھ رہے ہیں شام کے سائے دھواں سر پر اٹھائے
ریگ زاروں میں بھٹکتی سوچ کے کچھ خشک لمحے
تلخئ حالات کی ہیں داستاں سر پر اٹھائے
خواہشوں کی آنچ میں تپتے بدن کی لذتیں ہیں
اور وحشی رات ہے گمراہیاں سر پر اٹھائے
چند گونگی دستکیں ہیں گھر کے دروازے کے باہر
چیخ سناٹوں کی ہے سارا مکاں سر پر اٹھائے
ذہن میں ٹھہری ہوئی ہے ایک آندھی مدتوں سے
ہم مگر پھرتے رہے ریگ رواں سر پر اٹھائے
عالم لا وارثی میں جانے کب سے در بدر ہوں
پشت پر ماضی کو لادے قرض جاں سر پر اٹھائے
مضطرب سی روح ہے میری بھٹکتا پھر رہا ہوں
میں کئی جنموں سے ہوں بار گراں سر پر اٹھائے
رندؔ جب بے سمتیوں میں خشک پتے اڑ رہے ہوں
تہمتیں کس کے لیے شام خزاں سر پر اٹھائے
غزل
سازشوں کی بھیڑ میں تاریکیاں سر پر اٹھائے
پی.پی سری واستو رند