EN हिंदी
بے تعلق روح کا جب جسم سے رشتہ ہوا | شیح شیری
be-talluq ruh ka jab jism se rishta hua

غزل

بے تعلق روح کا جب جسم سے رشتہ ہوا

پی.پی سری واستو رند

;

بے تعلق روح کا جب جسم سے رشتہ ہوا
گھر میں لا وارث پس منظر کا سناٹا ہوا

دھوپ لہجے میں نوکیلاپن کہاں سے لائے گی
ہم نے دیکھا ہے شفق سورج ابھی بجھتا ہوا

چاہتا ہے دل کسی سے راز کی باتیں کرے
پھول آدھی رات کا آنگن میں ہے مہکا ہوا

سرخ موسم کی کہانی تو پرانی ہو گئی
کھل گیا موسم تو سارے شہر میں چرچا ہوا

آسماں زہراب منظر گمشدہ بیزاریاں
لمس تنہائی کا لگتا ہے مجھے ڈستا ہوا

ہر طرف روتی ہوئی خاموشیوں کا شور ہے
دیکھنا یہ میری بستی میں اچانک کیا ہوا

جسم میرا جاگتا ہے دونوں آنکھیں بند ہیں
اور سناٹا ہے میری روح تک اترا ہوا

عافیت گر چاہتے ہو رندؔ واپس گھر چلو
اب تماشا گاہ کا منظر ہے کچھ بگڑا ہوا