روشنی بھر خلا پہ بار تھے ہم
دھند منظر پس غبار تھے ہم
دھوپ میں آئے تو سکون ملا
چھاؤں میں تھے تو داغ دار تھے ہم
کوئی دستک نہ کوئی آہٹ تھی
مدتوں وہم کے شکار تھے ہم
بت گری میں ہنر بھی شامل تھا
سنگ سازی سے ہوشیار تھے ہم
قرض کوئی بھی جسم و جاں پہ نہ تھا
زندگی پر مگر ادھار تھے ہم
ظلمتیں تو چراغ خیمہ تھیں
خلوتوں کے گناہ گار تھے ہم
فکر و معنی تلازمے تشبیہ
اے غزل تیرے جاں نثار تھے ہم
رندؔ تھا بیکسی کا لطف عجیب
گھر میں رہ کر بھی بے دیار تھے ہم
غزل
روشنی بھر خلا پہ بار تھے ہم
پی.پی سری واستو رند