پیوند کی طرح نظر آتا ہے بد نما
پختہ مکان کچے گھروں کے ہجوم میں
اویس احمد دوراں
سب مستیوں میں پھینکو نہ پتھر ادھر ادھر
دیوانو! اس دیار میں شیشے کے گھر بھی ہیں
اویس احمد دوراں
شاید کسی کی یاد کا موسم پھر آ گیا
پہلو میں دل کی طرح دھڑکنے لگی ہے شام
اویس احمد دوراں
ان مکانوں میں بھی انسان ہی رہتے ہوں گے
رونقیں جن میں نہیں آپ کی محفل کی سی
اویس احمد دوراں
وہ لہو پی کر بڑے انداز سے کہتا ہے یہ
غم کا ہر طوفان اس کے گھر کے باہر آئے گا
اویس احمد دوراں
یہ صحن گلستاں نہیں مقتل ہے رفیقو!
ہر شاخ ہے تلوار یہاں، جاگتے رہنا
اویس احمد دوراں
یہ زیست کہ ہے پھول سی مٹ جائے بلا سے
گلچیں سے مگر بر سر پیکار ہی رہئے
اویس احمد دوراں