EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

دھرتی کو دھڑکن ملی ملا سمے کو گیان
میرے جب جب لب کھلے اٹھا کوئی طوفان

نذیر فتح پوری




کاغذ کو میں نے دیا شبدوں کا وردان
گیت غزل کے روپ میں مجھے ملا سمان

نذیر فتح پوری




کون اب اس کو اجڑنے سے بچا سکتا ہے
ہائے وہ گھر کہ جو اپنے ہی مکیں کا نہ رہا

نذیر فتح پوری




پسینہ میری محنت کا مرے ماتھے پہ روشن تھا
چمک لعل و جواہر کی مری ٹھوکر پہ رکھی تھی

ناظر صدیقی




مجھ سے زیادہ کون تماشہ دیکھ سکے گا
گاندھی جی کے تینوں بندر میرے اندر

ناظر وحید




رنگ درکار تھے ہم کو تری خاموشی کے
ایک آواز کی تصویر بنانی تھی ہمیں

ناظر وحید




جوانو نذر دے دو اپنے خون دل کا ہر قطرہ
لکھا جائے گا ہندوستان کو فرمان آزادی

نازش پرتاپ گڑھی