دھرتی کو دھڑکن ملی ملا سمے کو گیان
میرے جب جب لب کھلے اٹھا کوئی طوفان
نذیر فتح پوری
کاغذ کو میں نے دیا شبدوں کا وردان
گیت غزل کے روپ میں مجھے ملا سمان
نذیر فتح پوری
کون اب اس کو اجڑنے سے بچا سکتا ہے
ہائے وہ گھر کہ جو اپنے ہی مکیں کا نہ رہا
نذیر فتح پوری
پسینہ میری محنت کا مرے ماتھے پہ روشن تھا
چمک لعل و جواہر کی مری ٹھوکر پہ رکھی تھی
ناظر صدیقی
مجھ سے زیادہ کون تماشہ دیکھ سکے گا
گاندھی جی کے تینوں بندر میرے اندر
ناظر وحید
رنگ درکار تھے ہم کو تری خاموشی کے
ایک آواز کی تصویر بنانی تھی ہمیں
ناظر وحید
جوانو نذر دے دو اپنے خون دل کا ہر قطرہ
لکھا جائے گا ہندوستان کو فرمان آزادی
نازش پرتاپ گڑھی