EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

رنگ لائی ہے حسرت تعمیر
گر رہی ہیں عمارتیں کیا کیا

نذیر قیصر




ابھر رہے ہیں کئی ہاتھ شب کے پردے سے
کوئی ستارہ لیے کوئی ماہتاب لیے

نذیر قیصر




اس نے خط میں بھیجے ہیں
بھیگی رات اور بھیگا دن

نذیر قیصر




یوں تجھے دیکھ کے چونک اٹھتی ہیں سوئی یادیں
جیسے سناٹے میں آواز لگا دے کوئی

نذیر قیصر




آئے تو دل تھا باغ باغ اور گئے تو داغ داغ
کتنی خوشی وہ لائے تھے کتنا ملال دے گئے

نظیر صدیقی




ابھی سے وہ دامن چھڑانے لگے ہو
جو اب تک مرے ہاتھ آیا نہیں ہے

نظیر صدیقی




اور ہی وہ لوگ ہیں جن کو ہے یزداں کی تلاش
مجھ کو انسانوں کی دنیا میں ہے انساں کی تلاش

نظیر صدیقی