فصیل جاں پہ رکھی تھی نہ بام و در پہ رکھی تھی
زمانے بھر کی بے خوابی مرے بستر پہ رکھی تھی
ابھر آئی تھی پیشانی پہ نقش معتبر بن کر
پرانی فکر کی خوشبو نئے منظر پہ رکھی تھی
نظر اٹھی تو بس حیرت سے ہم دیکھا کئے اس کو
ہماری گمشدہ دستار اس کے سر پہ رکھی تھی
اسی کو زخم دینے پر تلا تھا سرپھرا سورج
مری تخئیل کی بنیاد جس شہ پر پہ رکھی تھی
زمیں پر روشنی آتی رہی جاتی رہی لیکن
ہماری خانہ ویرانی بس اک محور پہ رکھی تھی
پسینہ میری محنت کا مرے ماتھے پہ روشن تھا
چمک لعل و جواہر کی مری ٹھوکر پہ رکھی تھی
مرے سر پر مسلسل آگ برساتا رہا سورج
نہ جانے کیسی ٹھنڈک میری چشم تر پہ رکھی تھی
مری گردن جو زینت بن چکی تھی قتل گاہوں کی
کبھی نیزے پہ رکھی تھی کبھی خنجر پہ رکھی تھی
بدل کر پیرہن قدموں کے نیچے آ گئی ناظرؔ
وہی مٹی جو اک دن دست کوزہ گر پہ رکھی تھی
غزل
فصیل جاں پہ رکھی تھی نہ بام و در پہ رکھی تھی
ناظر صدیقی