آسماں کا نہ رہا اور زمیں کا نہ رہا
غم کی جو شاخ سے ٹوٹا وہ کہیں کا نہ رہا
اتنے بے رنگ اجالوں سے نظر گزری ہے
حوصلہ آنکھ کو اب خواب حسیں کا نہ رہا
وقت نے سارے بھروسوں کے شجر کاٹ دئے
اب تو سایہ بھی کوئی خاک نشیں کا نہ رہا
کون اب اس کو اجڑنے سے بچا سکتا ہے
ہائے وہ گھر کہ جو اپنے ہی مکیں کا نہ رہا
اے نظیرؔ اپنی شرافت ہے اسی کی قائل
ہاں کا پابند ہوا جب تو نہیں کا نہ رہا
غزل
آسماں کا نہ رہا اور زمیں کا نہ رہا
نذیر فتح پوری