EN हिंदी
آسماں کا نہ رہا اور زمیں کا نہ رہا | شیح شیری
aasman ka na raha aur zamin ka na raha

غزل

آسماں کا نہ رہا اور زمیں کا نہ رہا

نذیر فتح پوری

;

آسماں کا نہ رہا اور زمیں کا نہ رہا
غم کی جو شاخ سے ٹوٹا وہ کہیں کا نہ رہا

اتنے بے رنگ اجالوں سے نظر گزری ہے
حوصلہ آنکھ کو اب خواب حسیں کا نہ رہا

وقت نے سارے بھروسوں کے شجر کاٹ دئے
اب تو سایہ بھی کوئی خاک نشیں کا نہ رہا

کون اب اس کو اجڑنے سے بچا سکتا ہے
ہائے وہ گھر کہ جو اپنے ہی مکیں کا نہ رہا

اے نظیرؔ اپنی شرافت ہے اسی کی قائل
ہاں کا پابند ہوا جب تو نہیں کا نہ رہا