روز سیہ میں ساتھ کوئی دے تو جانئے
جب تک فروغ شمع ہے پروانہ ساتھ ہے
نظم طبا طبائی
سحر کو اٹھتے ہیں وہ دیکھ کر کف رنگیں
اب آئنے پہ بھی سکے حنا کے بیٹھ گئے
نظم طبا طبائی
تو نے تو اپنے در سے مجھ کو اٹھا دیا ہے
پرچھائیں پھر رہی ہے میری اسی گلی میں
نظم طبا طبائی
اڑ کے جاتی ہے مری خاک ادھر گاہ ادھر
کچھ پتا دے نہ گئی عمر گریزاں اپنا
نظم طبا طبائی
اڑائی خاک جس صحرا میں تیرے واسطے میں نے
تھکا ماندہ ملا ان منزلوں میں آسماں مجھ کو
نظم طبا طبائی
یہ دل کی بے قراری خاک ہو کر بھی نہ جائے گی
سناتی ہے لب ساحل سے یہ ریگ رواں مجھ کو
نظم طبا طبائی
یوں میں سیدھا گیا وحشت میں بیاباں کی طرف
ہاتھ جس طرح سے آتا ہے گریباں کی طرف
نظم طبا طبائی